EN हिंदी
صبائے صحرا | شیح شیری
saba-e-sahra

نظم

صبائے صحرا

شمیم علوی

;

بے داغ وسعتوں کی آہوئے بے باک
تیرے ایک ہی مشک بیز جھونکے نے

یادوں کے دریچے کھول دیے ہیں
جھلستی دوپہروں میں

گھنے پیپل کی چھاؤں میں
جھولا جھولتی ہم جولیاں

خوش گلو چاڑھے کی آواز میں
ریگ زاروں کے گیت

کن رس ہوئے جاتے ہیں
برسات کی آبنوسی رات کا منظر

کھلے آسمان تلے بان کی ٹھنڈی چارپائی پر
چادر تان کر

دھلے تاروں کی جھلملاہٹ
دید رس ہوئی جاتی ہے

ساون رت میں گیلی سوندھی مٹکی مہکار
چڑھی نہروں کی سلونی ساونی تھی مشک بار

سبحان تیری قدرت کی
صدائیں بھی عجب تھیں

ڈال ڈال کو کئی کوئل کی
ادائیں بھی غضب تھیں

میں چشم تصور سے
ان چندھیا دینے والے روشنیوں سے

نظریں بچا کر
اس بزم نشاط میں جھانک لیتی ہوں

کہ
ہر شے اپنے اصل کو ڈھونڈھتی ہے