ساحلوں سے کہو، میں نہیں آؤں گا
اب کسی شہر کی رات میرے لیے جگمگائے نہیں
دھوپ بوڑھے مکانوں کی اونچی چھتوں پر مرا نام لے کر بلائے نہیں
میں نہیں آؤں گا
یاد آتا ہے، اک دن کسی سے کہا تھا
تجھے پہن کر دور کے شہر کی اجنبی دھرتیوں میں اتر جاؤں گا
میں عقیدہ ہوں: مر جاؤں گا
یاد آتا ہے، اک دن کسی نے کہا تھا
میں تیرے لیے، تیرے احساس کی وادیوں کی گھنی چھانو میں پر سکوں
نیند سو جاؤں گی
بے صدا لفظ ہوں، تیری آنکھوں میں کھو جاؤں گی
یاد آتا ہے، اک دن مرے روبرو: ایک پر شور اور بیکراں بحر تھا
یاد آتا ہے، اک دن مرے روبرو: میں کوئی جاگتا جگمگاتا ہوا
ڈوبتا شہر تھا
ایک آواز تھی: دوریوں سے بلاتی ہوئی
ایک آواز تھی، دور کے اک اکیلے پہاڑی نگر کے انوکھے سے منظر
دکھاتی ہوئی
مجھ سے چھو کر کہیں دور جاتی ہوئی
وقت مجھ سے پرے
وقت تجھ سے پرے
میں عقیدہ ہوں
تو بے صدا لفظ ہے
اپنے اپنے بدن کے الاؤ میں جل جائیں گے
دور کے
جگمگاتے ہوئے
منتظر ساحلوں سے کہو
ہم نہیں آئیں گے
ہم نہیں آئیں گے
نظم
ساحلوں سے کہو، میں نہیں آؤں گا
کمار پاشی