ہم روایات کی کہنہ صدیوں کے پربت تلے
وہ گھنے سبز جنگل ہیں جو
بے پناہ شاخ در شاخ تابندگی
تازگی کے تموج سے سنولا کے
خود ہی جھلس جائیں
ایسے جلیں ایسے جلیں
کہ فقط دور تک کوئلہ کوئلہ ہی دکھائی دے
اور تازگی کی نمو
خاک سے بھی گواہی نہ دے
وہ مقدر کے اچھے
کہ جن کو جلاپے کی مدت گزرنے پہ
ان کوئلوں کی جگہ ہیرے موتی ملے
وہ مقدر کے اچھے
کہ جن کی دعائیں زمیں کی تہوں میں وہیں
تو کہیں سونا چاندی بنیں
وہ مقدر کے اچھے
کہ جن کے بدن کھولتے خوں کے چشمے تھے
اب بھی ہیں
پارے کی کانوں کی صورت کہیں
تو کہیں ایسے بھی سخت جانوں کے ہیں سلسلے جا بجا
جن سے فولاد کا نام پایندہ ہے
وہ جلن جو کبھی تازگی کے تموج سے پیدا ہوئی
ہے مقدر کی تحریر ایسی کہ جس کی جلن ابتدا
انتہا بھی جلن
جلتے رہنے کا یہ سانحہ بھی جلن
انجمن انجمن
چودھویں رات کے چاند نے بھی کہا
بھیگی برسات کے رعد نے بھی کہا
تم وہی ہو کہ جن کو چٹخنے کی مہلت بھی ملتی نہیں
اب روایت یہی ہے
نبھاؤ ہنسو
مسکراؤ جلو
ہر اک زرد چہرہ گلابی کرو
ہر اک آنکھ کو ارغوانی کرو
مگر یاد رکھو
روایت نہ ٹوٹے
تموج کی ہر تازگی لاکھ جھلسے
روایت نہ ٹوٹے
نظم
روایت نہ ٹوٹے
کشور ناہید