ہوا اڑائے ریشم بادل کے پردے
چھن چھن کر پیڑوں سے اتریں روشنیاں
جیسے اچانک بچوں کو آ جائے ہنسی
جنگل تیرہ بخت نہیں
چھن چھن کر چھتنار سے برسو روشنیو
پودوں کی رگ رگ میں تیرو روشنیو
جنگل کے سینے کے کونوں کھدروں میں
دبے ہوئے اسرار بہت
خواب گزیدہ نشے میں سرشار بہت
نیند نگر کو تجنے پر اصرار بہت
کونپل کونپل پھوٹنے پہ تیار بہت
بوڑھے پیڑ نہ رستہ روکو
ان خوابوں کو جی لینے دو
چھن چھن کر چھتنار سے برسو روشنیو
اس معصوم ہنسی میں گرچہ ربط نہیں
پل بھر میں آنسو بن جائیں ضبط نہیں
اس موتی کے قلب میں اترو روشنیو
اور چمک اس کی چمکاؤ روشنیو
نگر نگر میں تم سا نازک لمس نہ پاؤں
کرن کرن کے لیکن برسوں بوجھ اٹھاؤں
نظم
روشنی کے بوجھ
ابرارالحسن