روشنی کم ہے نہ کر اس کی شکایت ہمدم
روشنی کم ہی رہے تو اچھا
شادمانی و خوشی کے ہم راہ
اک نہ اک غم بھی رہے تو اچھا
دشت و صحرا ہو کہ باغ دبستاں
سطح دریا ہو کہ چٹیل میدان
رات ہر چیز پہ ہے سایہ نشاں
روشنی کم ہے اندھیرا ہی زیادہ ہے یہاں
شاہراہوں کے نظاروں پہ نہ جا
قمقموں کی نظر افروز قطاروں پہ نہ جا
کیونکہ اک چشم بصیرت کے لیے
جو بھی ہے پیش نظر
چشمک برق ہے یا رقص شرر
آ ذرا موڑ ادھر کو بھی نگاہیں اپنی
تیرہ و تار ہے کتنی یہ گلی
ٹمٹماتی ہے جہاں کھمبے پر
ایک میلی سی شکستہ چمنی
جس طرح نزع میں کوئی بیمار
کب تلک روشنی پھیلائے گی یہ
صبح سے پہلے ہی بجھ جائے گی یہ
اور پھر ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا ہوگا
اس اندھیرے ہی میں بس اس کا سویرا ہوگا
آ کہ ہم اب دل انساں بھی ٹٹولیں چل کر
بند ہیں یہ جو دریچے انہیں کھولیں چل کر
ایک یا دو کے سوا سب ہیں سیاہی سے بھرے
جیسے پتے شجر خشک میں دو چار ہرے
تیرہ و تار ہے کس درجہ ضمیر انساں
روشنی اس میں کہاں
روشنی کم ہے اندھیرا ہی زیادہ ہے یہاں
نظم
روشنی کم ہے
امجد نجمی