کٹتی نہیں سرد رات
ڈھلتی نہیں زرد رات
رات جدائی کی رات
خالی گلاسوں کی سمت
تکتی ہوئی آنکھ میں
قطرۂ شبنم نہیں
کون لہو میں بہے
میری رگوں میں چلے
تیز ہو سانسوں کا شور
جلنے لگے پور پور
آئے سمندر میں جوش
گر پڑے دیوار ہوش
سوکھی ہوئی شاخ پر
برگ و ثمر کھل اٹھیں
آؤ مری نیند کی
بکھری ہوئی پتیاں
آج سمیٹو ذرا
کب سے کھلا ہے بدن
اس کو لپیٹو ذرا
ایک شکن دو شکن
بستر تنہائی پر
پھر سے بڑھا دو ذرا
مجھ کو رلا دو ذرا
ایک پہر رات ہے
رات جدائی کی رات
نظم
رات جدائی کی رات
شہریار