سبک پا ہوا کی طرح میں گزرتا رہا
سبک پا ہوا کی کہیں کوئی منزل نہیں
ہوا بیکراں وقت کی موج ازل سے ترستی رہی
کہیں پل کو سستا سکے سو سکے
مگر دور حد نظر اک دھندلکا تھا اب بھی دھندلکا ہے ساحل نہیں
مجھے زندگی اک خلش بن کے ڈستی رہی
کبھی ایسی منزل نہ آئی جہاں کوئی تازہ نفس ہو سکے
ہر اک دھندلی منزل سے پہلے نیا راستہ ہی ابھرتا رہا
کبھی جلتے پھولوں کی نوخیز خوشبوئیں دل میں دہکتی رہیں
کبھی خشک جھلسی ہوئی ٹہنیاں ابر پاروں کو حسرت
سے تکتی رہیں
وہ کچھ مجھ سے کہنے کو تھیں اور جھجکتی رہیں
کبھی سکھ کے سائے کبھی دکھ کے دریا مرا دل مچلتا رہا
کہیں پھیلے میداں کہیں سخت اونچی چٹانوں کے
الجھے ہوئے سلسلے
مگر میری منزل یہاں بھی نہیں تھی وہاں بھی نہیں
میں چلنے پہ مجبور چلتا رہا
میں ہر بار کچھ بھول آیا ہوں پیچھے کہیں
یوں ہی جیسے خود رہ گیا ہوں کسی پھول کے پاس
چلتے ہوئے
نظم
راہرو
ضیا جالندھری