آج میں دور بہت دور نکل آیا ہوں
بے طلب تگ و دو
دل میں کاوش نہ تلاش
نہ کوئی خواہش مخفی نہ تمنائے معاش
ہوس خام نہ سودائے تمام
یوں ہی چلتا ہوا چلتا ہوا آ پہنچا ہوں
پے بہ پے گام بہ گام
کس قدر دور نکل آیا ہوں
اس سے پہلے بھی چلا ہوں میں نئی راہوں پر
شاہراہوں سے پرے
خار زاروں میں گھسٹتی ہوئی اک سرخ لکیر
اک سسکتی ہوئی دل دوز نفیر
سرسراتے ہوئے ملبوس
مہکتی ہوئی سانس
لذت و کرب کا مدھم بم و زیر
آج لیکن میں بہت دور نکل آیا ہوں
اور اک شام سر راہ گزار
وہ مری لغزش پا میری وہ بے راہروی
خود فراموش سبک دوش عمل
اپنے اجداد کے ناکردہ گناہوں کی عقوبت سے بری
اک ہرن چوکڑی بھرتا ہوا خاموش خرام
شام کے وقت سر راہ گزار
میں بہت دور بھٹک نکلا تھا
آج لیکن میں بہت دور نکل آیا ہوں
آپ سے آپ بہت دور بہت دور نکل آیا ہوں
شاہراہوں سے پرے دور گزر گاہوں سے
بے طلب بے تگ و دو
خانقاہوں سے الگ دور صنم خانوں سے
ہوس خام نہ سودائے تمام
یوں ہی چلتا ہوا چلتا ہوا آ پہنچا ہوں
پے بہ پے گام بہ گام
کس قدر دور بہت دور نکل آیا ہوں
نظم
راہرو
محمد دین تاثیر