EN हिंदी
قصۂ چہار خواب | شیح شیری
qissa-e-chahaar-KHwab

نظم

قصۂ چہار خواب

قمر جمیل

;

اول
حلقۂ یاراں میں کنعاں رات کے پچھلے پہر

بستیوں سے دور نہروں کے کنارے خیمہ زن
وہ درختوں کی ہواؤں میں ستارے خیمہ زن

بستیوں سے دور صحرا کے نظارے خیمہ زن
حلقۂ یاراں میں کتنے نازنیں نازک کمر

دوم
رقص کے ہنگام کتنے بازوؤں کا پیچ و خم

دیکھنے والوں کی نظروں میں اتر آنے کو ہے
یہ بدن کا لوچ جیسے روح بل کھانے کو ہے

یہ نظر کے سامنے کتنے ہی عالم خواب سے
رقص کے ہنگام ابھر آتے ہیں کتنے شوخ رنگ

اور کتنے تیز ہو جاتے ہیں نظروں کے خدنگ
یہ خیالوں کے گلستاں یہ نگاہوں کے قفس

رقص کے یہ دائرے شعلہ بداماں ہر نفس
سویم

رسم ادا ہونے نہ پائی تھی کہ خیموں کے قریب
شہ نشیں کی سمت دوڑے اس طرح وحشی نقیب

کتنے ارماں کتنے غم اشکوں میں ڈھل کر رہ گئے
عین جشن رسم کے ہنگام کنعاں کا گریز

کتنے منظر عارض و لب کے پگھل کر رہ گئے
کتنے لب حسرت چشیدہ کتنی آنکھیں اشک ریز

جیسے ساغر آئیں ہاتھوں میں مگر ٹوٹے ہوئے
چھیڑیو مت زندگی کے بال و پر ٹوٹے ہوئے

تار ہیں اس ساز کے اے نغمہ گر ٹوٹے ہوئے
چہارم

یہ قبیلوں کے شیوخ پختہ عمر و سخت کوش
وادیٔ دجلہ کے شہری کرد کے خانہ بدوش

لڑ رہے ہیں اپنی اپنی کج کلاہی کے لیے
کون دارو بن کے آئے کم نگاہی کے لیے

گرمئ گفتار سے ممکن نہیں دل کا رفو
گفتگو سے اور بڑھ جاتا ہے جوش گفتگو