بارے آئی نجات کی باری
کھل گیا عقدۂ گرفتاری
ہم کو منصب ملا رہائی کا
قید کو جائیداد بیکاری
پاؤں کو چھوڑ بھاگے مار دو سر
سر کو پشتارۂ گرانباری
کوچ ٹھہرا مقام غربت سے
اب وطن چلنے کی ہے تیاری
رخصت اے دوستان زندانی
الوداع اے غم گرفتاری
الرحیل اے مشقت ہر زور
الفراق اے ہجوم ناچاری
دال فے عین اے کتابت قید
گاف میم اے حساب سرکاری
دال چاول سے کہہ دو رخصت ہوں
پانی میں ڈوبے یہ نمک کھاری
مچھلیوں سے کہو کہ ہٹ کے سڑیں
گھاس کھودے یہاں کی ترکاری
چینی برہما ملائی مدراسی
اہل آشام جنگلی تاتاری
اپنے دیدار سے معاف کریں
اپنی باتوں سے دیں سبکساری
کالے پانی سے ہوتے ہیں رخصت
اشک شادی ہیں آنکھوں سے جاری
بیٹھتے ہیں جہاز دوری پر
اٹھتے ہیں لنگر گرانباری
کرم اے خضر المدد اے نوح
رحم اے فضل حضرت باری
السلام اے خروش بحر محیط
السفر اے سفینۂ جاری
زاد راہ سفر توکل ہے
رہنمائی کو اس کی غفاری
ہے ارادہ کہ فکر شعر کریں
تاکہ ہو دور رنج بیکاری
بسکہ برسوں رہا ہوں زنداں میں
بھولی قصر سخن کی معماری
نظم
قید سے نجات
منیرؔ شکوہ آبادی