نہ جانے کیا ملا کیا حسرتیں باقی رہیں دل میں
ابھی دنیا سے کیا کچھ اور لینا ہے
مجھے تو یہ خبر ہے
یہ دہکتی آگ
سب کچھ خاک کر دے گی
فقط میرا نشاں
اٹھتا دھواں
چاروں طرف رشتوں پہ میلی راکھ چھڑکاتا
یہ تیزابی
رگ و پے میں پنپتا زہر
مغرورانہ بے زاری
نگہ داری کی دیواریں کھڑی کرتی
یہ سب اس آگ میں کیوں جل نہیں جاتے
ابھی دنیا سے کیا کچھ مانگنا ہے
کیا جھپٹنا ہے
میں سائل ہوں لٹیرا ہوں
ہوئی ہے مسخ یوں صورت کی پہچانی نہیں جاتی
میں کب تک جھونکتا جاؤں گا یہ تنور
لہکی آگ سے کب نور پھوٹے گا
کوئی ننھی کرن دھیمی سی لو
مجھ سے کہیں تو چاندنی پھیلے
میں کب دنیا کو لوٹاؤں گا اس کے پیار کے تحفے
نظم
پیار کے تحفے
ابرارالحسن