EN हिंदी
پھیری والا | شیح شیری
pheri wala

نظم

پھیری والا

سجاد باقر رضوی

;

پریت نگر سے پھیری والا میری گلی میں آیا
چوڑی، لونگ، انگوٹھی، چھلے رنگ برنگے لایا

میں نے پوچھا اور بھی کچھ ہے، بولا میٹھا سپنا
جس کو لے کر جیون بھر اک نام کی مالا جپنا

میں نے کہا کیا مول ہے اس کا، بولا اک مسکان
تن میں آگ لگاؤ اس سے رکھو من کی آن

سستا سودا دیکھ کے آخر میں پگلی مسکائی
جیون بھر کا روگ سمیٹ کے میں کیسی اٹھلائی

رہے گا لال گلاب سا سپنا کب تک میرے سنگ
کب تک اس میں باس رہے گی، کب تک اس میں رنگ

اس کے تار بکھر جائیں گے کب میرا دل مانے
دل پہ رہے گا کب تک جادو پھیری والا جانے