EN हिंदी
پرچھائیاں | شیح شیری
parchhaiyan

نظم

پرچھائیاں

نتن نایاب

;

کاش اک شب کوئی چاند ایسا اگے
عادتاً تو مجھے یوں تو جس میں دکھے

ہاں اگر عکس ہو وہ ترا آخری
درد کا ہو یہ منظر مرا آخری

اس سحر میں کھلے آنکھ میری کی جب
یوں لگے جیسے تو ہے نہیں تھا نہیں

وہ جو لمحے گزر کر گیا تھا کبھی
یوں لگے وہ کبھی جیسے گزرا نہیں

پر خیالات تو پھر خیالات ہیں
کچھ نہیں دل سے عمدہ یہ جذبات ہیں

پھر یہ ممکن کہاں گر کوئی ہو ملا
ساتھ سانسیں بھری ساتھ رویا ہنسا

وہ جو حصہ ہو اک زندگی کا مری
ہو سبب غم کا یا ہو خوشی کا مری

جو ہوا ہے وہ کیسے ہوا ہی نہیں
کیسے سوچوں وہ دل میں رہا ہی نہیں

وہ تو تھا اب بھی ہے اور رہے گا سدا
وہ گیا تھا ہی کب جو کہ آئے بھلا

اپنے ماضی میں جھانکوں نہ پاؤں تجھے
اب یہ ممکن کہاں بھول جاؤں تجھے

ایک پل تھا ابھی تو یہیں تھا یہیں
اور پل یہ ہے اک تو کہیں بھی نہیں

گر نہیں تو تو یادیں تری کیوں رہیں
ذہن و دل پر یہ باتیں تری کیوں رہیں

کیا کبھی زندگی ایسا ہوگا نہیں
وہ جو اب ہے نہیں مان لوں تھا نہیں

ایسا ہوگا کبھی ہو تسلی کبھی
یہی ہونا تھا لکھا ہوا بھی یہی

جس طرح ایک پل میں جدا وہ ہوا
میں بھی کہہ دوں کہ اب جو ہوا سو ہوا

پر یہی اک ہنر مجھ کو آیا نہیں
یاد کر کے یہ دل بھول پایا نہیں

لخت دل کی طرح مجھ میں رہتا ہے وہ
قطرۂ خون سا مجھ میں بہتا ہے وہ

وہ کوئی شے کہاں میں جسے چھوڑ دوں
رابطہ وہ کہاں میں جسے توڑ دوں

مشق ہے رنگ ہے لطف ہے خاص ہے
یاد ہے یاد تو ایک احساس ہے

یاد میں اب کہاں چھوڑ آؤں تجھے
اب یہ ممکن کہاں بھول جاؤں تجھے