EN हिंदी
پہلی برف باری | شیح شیری
pahli barf-bari

نظم

پہلی برف باری

ظہور نظر

;

نیلگوں ابر چھٹا
سرمئی شام کے سورج کی طلائی کرنیں

مرمریں برف کے بلور بدن پر برسیں
جھومتے پیڑوں کی باہوں میں مہکتے جھونکے

پینگ سی لے کے پری چہرہ منڈیروں کی جبیں پر امڈے
دھند کی ملگجی آغوش میں خوابیدہ مکانوں کی چھتوں نے اپنی

چھاتیاں کھول کے انگڑائیاں لیں
زلزلہ تھا کہ مرا وہم تھا کچھ تھا جس سے

تھرتھرا اٹھے مرے ہاتھ اور ان کے نیچے
جھنجھنا اٹھی تھی یوں بالکنی کی ریلنگ

جیسے بج اٹھیں کسی ساز کے تار
اور میں لوٹ کے کمرے میں چلا آیا تھا

احمریں شال میں لپٹی ہوئی اک لڑکی نے
چائے کی پیالی مرے ہاتھ میں دیتے ہوئے ہولے سے کہا تھا اب تو

اس سکوں زار میں کوئی بھی نہیں اپنے سوا
تم جنہیں روگ سمجھتے تھے وہ سب لوگ گئے

اولیں برف کے پڑتے ہی مری کا ہر گھر
بے صدا چھوڑ گئے اس کے مکیں

شور کا نام نہیں
اب تو یوں چپ نہ رہو

جی میں آیا تھا کہ اس سے کہہ دوں
سب کہاں تم تو ابھی تک ہو یہاں پر لیکن

جانے کیا سوچ کے خاموش رہا