EN हिंदी
نمائش علی گڑھ | شیح شیری
numaish-e-aligarh

نظم

نمائش علی گڑھ

شکیل بدایونی

;

شفق نزع میں لے رہی تھی سنبھالا
اندھیرے کا غم کھا رہا تھا اجالا

ستاروں کے رخ سے نقاب اٹھ رہی تھی
فضاؤں سے موج شباب اٹھ رہی تھی

مئے زندگی جام مے نوش میں تھی
وہ کیف مسرت، وہ لمحات رنگیں

وہ احساس مستی وہ جذبات رنگیں
وہ پر کیف عالم وہ دل کش نظارے

وہ جلووں کے بہتے ہوئے خشک دھارے
وہ نمکین آغاز شب اللہ اللہ

نمائش کی وہ تاب و تب اللہ اللہ
وہ باب مزمل پہ جشن چراغاں

فلک پر ہوں جیسے ستارے درخشاں
فضاؤں میں گونجے ہوئے وہ ترانے

وہ جاں بخش نغمے وہ پر لطف گانے
وہ ہر سمت حسن و لطافت کی جانیں

وہ آراستہ صاف ستھری دکانیں
کہیں پر ہے نظارہ کاری گری کا

کہیں گرم ہوٹل ہے پیشاوری کا
بہ قدر سکوں وہ دلوں کا بہلنا

امیروں غریبوں کا یکجا ٹہلنا
نمایاں نمایاں وہ یاران کالج

وہ عشرت بہ داماں جوانان کالج
کوئی تیز دستی و چستی پہ نازاں

کوئی صحت و تندرستی پہ نازاں
کوئی حسن کی جلوہ ریزی پہ مائل

کوئی شوخ نظروں کی تیزی پہ مائل
ادھر چشم حیراں کی نظارہ سازی

ادھر حسن والو کی جلوہ طرازی
خراماں خراماں وہ ہمجولیوں میں

نکلتی ہوئی مختلف ٹولیوں میں
نقابوں میں وہ بے نقابی کا عالم

جو لاتا ہے دل پر خرابی کا عالم
کسی کا وہ چہرے سے آنچل اٹھانا

کسی کا کسی سے نگاہیں چرانا
کبھی یک بیک چلتے چلتے ٹھہرنا

نگاہوں سے جلووں کی اصلاح کرنا
کبھی اک توجہ دکانوں کی جانب

کبھی اک نظر نوجوانوں کی جانب
تماشا غرض کامیاب آ رہا تھا

نمائش پہ گویا شباب آ رہا تھا
ادھر ہم بھی بزم تخیل سجا کر

کھڑے ہو گئے ایک دکاں پہ آ کر
نظر مل گئی دفعتاً اک نظر سے

دھڑکنے لگا دل محبت کے ڈر سے
ادھر تو نظر سے جبیں سائیاں تھیں

ادھر سے بھی کچھ ہمت افزائیاں تھیں
خلش دل کی دونوں کو تڑپا گئی تھی

محبت کی منزل قریب آ گئی تھی
خیالات میں اس طرف اک تلاطم

لبوں پر ادھر ہلکا ہلکا تبسم
نگاہوں سے عہد وفا ہو رہا تھا

اشاروں سے مطلب ادا ہو رہا تھا
ادھر عشق کے بام و در سج رہے تھے

گھڑی میں جو دیکھا تو نو بج رہے تھے
یکایک جواں کچھ مرے پاس آئے

جو تھے آستینوں پہ بلے لگائے
کہا اتنی تکلیف فرمائیے گا

نمائش سے تشریف لے جائیے گا
غرض چل دئے گھر کو مجبور ہو کر

محبت کے جلووں سے معمور ہو کر
ہوئی جاری رہی تھی عجب حالت دل

کوئی چھین لے جیسے پڑھتے میں ناول
ہم اس طرح باب مزمل سے نکلے

لہو جیسے ٹوٹے ہوئے دل سے نکلے
بہر حال اب بھی وہی ہے نمائش

نوید طرب دے رہی ہے نمائش
وہی جشن ہے اور وہی زندگی ہے

مگر جیسے ہر شے میں کوئی کمی ہے
ارے او نگاہوں پہ چھا جانے والی

مرے دل کو رہ رہ کے یاد آنے والی
تری طرح جلوہ نما ہے نمائش

ترے حسن کا آئنا ہے نمائش
نمائش میں تیری لطافت ہے پنہاں

نمائش میں تیری نزاکت ہے پنہاں
نگاہوں کو ناحق تری جستجو ہے

یقیناً نمائش کے پردے میں تو ہے