سرشار نگاہ نرگس ہوں پا بستۂ گیسوئے سنبل ہوں
یہ میرا چمن ہے میرا چمن میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
ہر آن یہاں صہبائے کہن اک ساغر نو میں ڈھلتی ہے
کلیوں سے حسن ٹپکتا ہے پھولوں سے جوانی ابلتی ہے
جو طاق حرم میں روشن ہے وہ شمع یہاں بھی جلتی ہے
اس دشت کے گوشے گوشے سے اک جوئے حیات ابلتی ہے
اسلام کے اس بت خانے میں اصنام بھی ہیں اور آذر بھی
تہذیب کے اس مے خانے میں شمشیر بھی ہے اور ساغر بھی
یاں حسن کی برق چمکتی ہے یاں نور کی بارش ہوتی ہے
ہر آہ یہاں اک نغمہ ہے ہر اشک یہاں اک موتی ہے
ہر شام ہے شام مصر یہاں ہر شب ہے شب شیراز یہاں
ہے سارے جہاں کا سوز یہاں اور سارے جہاں کا ساز یہاں
یہ دشت جنوں دیوانوں کا یہ بزم وفا پروانوں کی
یہ شہر طرب رومانوں کا یہ خلد بریں ارمانوں کی
فطرت نے سکھائی ہے ہم کو افتاد یہاں پرواز یہاں
گائے ہیں وفا کے گیت یہاں چھیڑا ہے جنوں کا ساز یہاں
اس فرش سے ہم نے اڑ اڑ کر افلاک کے تارے توڑے ہیں
ناہید سے کی ہے سرگوشی پروین سے رشتے جوڑے ہیں
اس بزم میں تیغیں کھینچی ہیں اس بزم میں ساغر توڑے ہیں
اس بزم میں آنکھ بچھائی ہے اس بزم میں دل تک جوڑے ہیں
اس بزم میں نیزے پھینکے ہیں اس بزم میں خنجر چومے ہیں
اس بزم میں گر کر تڑپے ہیں اس بزم میں پی کر جھومے ہیں
آ آ کے ہزاروں بار یہاں خود آگ بھی ہم نے لگائی ہے
پھر سارے جہاں نے دیکھا ہے یہ آگ ہمیں نے بجھائی ہے
یاں ہم نے کمندیں ڈالی ہیں یاں ہم نے شب خوں مارے ہیں
یاں ہم نے قبائیں نوچی ہیں یاں ہم نے تاج اتارے ہیں
ہر آہ ہے خود تاثیر یہاں ہر خواب ہے خود تعبیر یہاں
تدبیر کے پائے سنگیں پر جھک جاتی ہے تقدیر یہاں
ذرات کا بوسہ لینے کو سو بار جھکا آکاش یہاں
خود آنکھ سے ہم نے دیکھی ہے باطل کی شکست فاش یہاں
اس گل کدۂ پارینہ میں پھر آگ بھڑکنے والی ہے
پھر ابر گرجنے والے ہیں پھر برق کڑکنے والی ہے
جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا
ہر جوئے رواں پر برسے گا ہر کوہ گراں پر برسے گا
ہر سرو و سمن پر برسے گا ہر دشت و دمن پر برسے گا
خود اپنے چمن پر برسے گا غیروں کے چمن پر برسے گا
ہر شہر طرب پر گرجے گا ہر قصر طرب پر کڑکے گا
یہ ابر ہمیشہ برسا ہے یہ ابر ہمیشہ برسے گا
نظم
نذر علی گڑھ
اسرار الحق مجاز