میں بچپن میں
دو قلم ایک ساتھ مانگتی تھی
میرے دادا خوش ہو جاتے
اور میری ماں بھی مسکراتی
پاپا، نانا بننے سے پہلے
بچوں کے کھیل میں دلچسپی نہیں لیتے
میں دو دو ہاتھوں سے لکیریں کھینچتی
ایک دن میرے ہاتھوں
عورت بن گئی
جس کے ہاتھ پیر ہی نہیں
دل اور دماغ بھی دکھ رہے تھے
پھر اس کی تہذیب کرنے میں
میری چھتیس راتیں گزر گئیں
سینتیسویں رات
پاپا میرے کھیل میں شریک ہوئے
مڑے تڑے کاغذ جیسے
اس عورت کو
اپنی جیب میں ٹھونس لیا
میں ملال میں
اپنے دونوں قلم توڑ بیٹھی
اب عورت نہیں
پھول بناؤں گی
کاغذی پھول
جنہیں نہ کہیں مٹی کی ضرورت
نہ ہوا روشنی اور پانی کی محتاجی ہو
پھر جو جہاں چاہے
انہیں رکھ دے
یا سجا دے

نظم
نظم
شبنم عشائی