EN हिंदी
نیا عشق | شیح شیری
naya ishq

نظم

نیا عشق

ظہور نظر

;

ایک عرصے سے
جذبات و احساس کی وادیٔ عشق کی بستی

نئے پرانے سبھی مکان تمناؤں کے
کھلی چھتیں عہد و پیماں کی

بند جھروکے کے آرزوؤں کے
نیم شکستہ دیوار و در ارمانوں کے

امیدوں کے اونچے نیچے لمبے چوڑے
گیلے اور پتھریلے رستے

راحت کے اشجار سکوں کی دوب طرب کی خود رو بیلیں
رنگ برنگی سوچ کے پھولوں کی شطرنجی

محرومی کی اونچی چوٹی
تنہائی کی جان لیوا ڈھلوان دکھوں کی سخت چٹانیں درد کی کھائی

سب پر یاس کی برف جمی تھی
چاروں جانب

ٹھنڈی اور بے جان سفیدی پھیل رہی تھی
جیون کیا تھا ایک کفن تھا

جس کے اندر
خود کو اپنے یخ بستہ سینے سے لگائے

میں اک زندہ لاش کی صورت پڑا ہوا تھا
دل کے ویرانے میں کچھ بے چہرہ لمحے

آسیبی سایوں کی صورت
کانپ رہے تھے ہانپ رہے تھے

آج اچانک
ایک پری چہرہ

میرے چہرے سے بے رنگ کفن سرکا کر
میرے کان میں سرگوشی کی

میری آنکھ میں جھانک کر بولی
اٹھ اور دیکھ

ترے دل کی بے خبر دھڑکن میں
کتنا پیارا کتنا دل آویز سیاہ گلاب کھلا ہے