تصور کرو
دن کے خوابوں کے برباد لمحوں کا
جب سولی چڑھی
اس کا سر آسماں پر تھا
قدموں میں ساری زمیں
ہاتھ پھیلے ہوئے منہ کھلا
جیبھ باہر لٹکتی ہوئی
مجھے کیا خبر تھی کہ یوں چاند تھک جائے گا
تصور کرو
اس گھڑی
میں جہاں تھا وہاں میرا سایہ نہ تھا
میں اسے ڈھونڈھتا
سات رنگوں کے دریا کی جانب چلا
مجھے کیا خبر تھی کہ پاتال میں وہ نہ تھا
ہر طرف ناگ تھے
عفریت کے ہاتھ میں ایک تلوار تھی
پھر وہ تلوار کی دھار تھی
اور میرا گلا
تصور کرو
پھر وہاں میرا سایہ تھا اور میں نہ تھا
نظم
نارسی سس
مغنی تبسم