بند آنکھیں کیے سر ساحل
کل سحر دم یہ سوچتا تھا میں
نیند کی گود میں زمانہ ہے، بیڑیاں توڑ دوں، نکل جاؤں
وادیٔ ہو میں جا کے کھو جاؤں
دفعتاً ایک موج نے بڑھ کر
اپنا سر میرے پاؤں پر رکھا
اور کہا
دیکھ چشم دل سے دیکھ
نیلگوں بحر کتنا دل کش ہے
ہے زمیں کس قدر حسین و جمیل
آسماں کتنا خوبصورت ہے
لیکن اے شاہکار دست ازل جس طرف کا ترا ارادہ ہے
کیا پتہ وہ دیار کیسا ہے
یہ فضا یہ ہوا یہ حسن تجھے
کیا خبر ہے، وہاں ملے نہ ملے؟
اور یوں بند ہو گئیں مجھ پر ہر طرف سے فرار کی راہیں!
نظم
ناکامی
افتخار اعظمی