میرے بدن کی چار دیواری کے لئے
کھنکتی ہوئی مٹی کم تھی
اس لئے خدا نے آنکھوں میں کانچ بھر دیا
اور جہنم کے لپکتے ہوئے شعلوں کی جلن لہو میں رکھ دی
میرے ہاتھوں میں لق و دق صحراؤں کی رتیلی وحشت
چبائے ہوئے عکس کی لکیریں بناتی رہتی ہے
اور ذہن کے رستے ہوئے پتیلے میں
دن بھر برداشت کا لاوا کھولتا ہے
لوگ اپنے اندازوں کی جوتیاں
میرے احساس کے دروازے پہ اتارتے ہیں
اور کفر کی مسجد میں ننگے پاؤں چلے آتے ہیں
میں اپنی ذات میں اتنی متعصب ہوں کہ
لہجوں کو ان کے مسلک سے پہچانتی ہوں
اور کسی با مروت خانقاہ میں
مجبوری کا سجدہ نہیں کرتی
کوئی غلیظ مسکراہٹ میری آنکھوں کو چھونا چاہے تو
میں ہونٹوں پہ تھوک دیتی ہوں
لیکن صدقۂ جاریہ کا سرخ رومال انگلی پہ نہیں باندھ سکتی

نظم
نا خلف مزاج کی مصدقہ تسلیمات
سدرہ سحر عمران