میں اپنے جسم کے باہر کھڑا ہوں
ان آنکھوں کے دریچے سے تو اب
بسیں سڑکیں ملوں کی چمنیاں
میونسپلٹی کا وہ نل کوڑھی بھکاری
دھنی مل کا بہت اونچا مکاں
کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ان آنکھوں میں میری
ہزاروں انجنوں کا شور ہے
کالا دھواں ہے
مگر دل کو لبھاتا ہے ابھی تک
نیلگوں دوری کا منظر
چاند تارے آسماں
دیکھنے کی خواہشیں
جاگتی ہیں
مشینی ہاتھ مجھ کو ڈھونڈتے ہیں
میں اپنے جسم کے باہر کھڑا ہوں
نظم
مراجعت
مصحف اقبال توصیفی