تم ایسی صبحوں تم ایسی شاموں میں
اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو
کہ جب ہوائیں سپردگی سے نہال ہو کر
تمہارے پہلو میں ڈولتی ہوں
تمہارے آنچل سے کھیلتی ہوں
تم ایسی صبحوں تم ایسی شاموں میں
اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو
کہ ہوائیں اداس لہجے میں تم سے پوچھیں
تمہارے آنکھوں کو کیا ہوا ہے
تمہارے چہرے پہ کیا لکھا ہے
تمہارے اٹھتے ہوئے قدم پر
یہ لڑکھڑاہٹ سی کس لیے ہے
تم ایسی صبحوں تم ایسی شاموں میں
اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو
کہ جب ہوائیں
بدلتے موسم کی سازشیں میں شریک ہو کر
تمہارے جی میں غلط بیانی کا زہر گھولیں
سنو اے پیاری سی سانولی سی سجیلی لڑکی
یہی ہوائیں تو آتے جاتے
مسافران رہ وفا پر
غبار تہمت اچھالتی ہے
محبتوں پر یقیں نہ ہو تو
دلوں میں پیہم
ہزار وہموں کو ڈالتی ہے
تم ایسی صبحوں تم ایسی شاموں میں
اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو کبھی نہ نکلو کبھی نہ نکلو
نظم
مکالمہ نذرِ عصمت
خالد معین