مجھے رونے دو رونے دو
اسی پیپل کے سائے میں
جہاں اک درد کی تاثیر کا مارا
بتاتا تھا کہ راز درد و غم کیا ہے
مداوائے الم کیا ہے
مجھے رونے دو رونے دو
جہاں مرلی کی دھن سن کر
وہ رادھائیں
کڑے جاڑے کے موسم میں
کسی کی گرمئی آغوش سے اٹھ کر
محبت کی دمکتی چاندنی میں جا نکلتی تھیں
مجھے رونے دو رونے دو
کہ میں اک اجنبی بن کر
تمہارے در پہ آیا ہوں، مرا کشکول خالی ہے
تمہارے پاس جو دھن تھا
مرا دل آج پھر اس کا سوالی ہے
مگر تم دان کیا دو گے
کہ تم تو خود بھکاری ہو
مجھے رونے دو رونے دو
نظم
مجھے رونے دو
منیب الرحمن