اے سیہ فام حسینہ ترا عریاں پیکر
کتنی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں غلطیدہ ہے
جانے کس دور الم ناک سے لے کر اب تک
تو کڑے وقت کے زندانوں میں خوابیدہ ہے
تیرے سب رنگ ہیولے کے یہ بے جان نقوش
جیسے مربوط خیالات کے تانے بانے
یہ تری سانولی رنگت یہ پریشان خطوط
بارہا جیسے مٹایا ہو انہیں دنیا نے
ریشۂ سنگ سے کھینچی ہوئی زلفیں جیسے
راستے سینۂ کہسار پہ بل کھاتے ہیں
ابروؤں کی جھکی محرابوں میں جامد پلکیں
جس طرح تیر کمانوں میں الجھ جاتے ہیں
منجمد ہونٹوں پہ سناٹوں کا سنگین طلسم
جیسے نایاب خزانوں پہ کڑے پہرے ہوں
تند جذبات سے بھرپور برہنہ سینہ
جیسے سستانے کو طوفان ذرا ٹھہرے ہوں
جیسے یونان کے مغرور خدا وندوں نے
ریگزاران حبش کی کسی شہزادی کو
تشنہ روحوں کے ہوس ناک تعیش کے لئے
حجلۂ سنگ میں پابند بنا رکھا ہو
نظم
مجسمہ
احمد فراز