مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو
ابھی تک دل میں تیرے عشق کی قندیل روشن ہے
ترے جلووں سے بزم زندگی جنت بدامن ہے
مری روح اب بھی تنہائی میں تجھ کو یاد کرتی ہے
ہر اک تار نفس میں آرزو بیدار ہے اب بھی
ہر اک بے رنگ ساعت منتظر ہے تیری آمد کی
نگاہیں بچھ رہی ہیں راستہ زر کار ہے اب بھی
مگر جان حزیں صدمے سہے گی آخرش کب تک
تری بے مہریوں پر جان دے گی آخرش کب تک
تری آواز میں سوئی ہوئی شیرینیاں آخر
مرے دل کی فسردہ خلوتوں میں جا نہ پائیں گی
یہ اشکوں کی فراوانی سے دھندلائی ہوئی آنکھیں
تری رعنائیوں کی تمکنت کو بھول جائیں گی
پکاریں گے تجھے تو لب کوئی لذت نہ پائیں گے
گلو میں تیری الفت کے ترانے سوکھ جائیں گے
مبادا یاد ہائے عہد ماضی محو ہو جائیں
یہ پارینہ فسانے موج ہائے غم میں کھو جائیں
مرے دل کی تہوں سے تیری صورت دھل کے بہہ جائے
حریم عشق کی شمع درخشاں بجھ کے رہ جائے
مبادا اجنبی دنیا کی ظلمت گھیر لے تجھ کو
مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو
نظم
مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو
فیض احمد فیض