EN हिंदी
میرا جی صاحب | شیح شیری
mira-ji sahib

نظم

میرا جی صاحب

جمیل الدین عالی

;

''میرا جی کو ماننے والے کم ہیں لیکن ہم بھی ہیں
فیضؔ کی بات بڑی ہے پھر بھی اب ویسا کون آئے گا''

تزئین سخن کی فکر نہ کر بے ساختہ چل
اٹھ آنکھیں مل

وہ کامل دیوان آ ہی گیا
دنیا بھر کو دہلا ہی گیا

ہاں مان لیا پر بحر کا کیا بدلے بدلی ہر بحر بدلنے والی ہے
جس رو میں سمندر لاکھ بھرے وہ رو پھر چلنے والی ہے

جب ہم نے پڑھا کب چون میں کئی نئے تو ان کو پہچانے
کچھ سکہ بند ترقی پسند اس جرأت پر بھی برا مانے

اور ہم سے ہو گئے بیگانے
یوں بھی کوئی ہم کو کیا جانے

اور جب یہ چھپا اٹھاؤں میں تو فیضؔ بہت ہی آگے تھے
جیلیں افسانے مجموعے

کچھ ایسا رعب ہوا قائم سب ان کے جلو میں بھاگے تھے
ہم جیسے بھی ان کے ملبوسات میں کچے پکے دھاگے تھے

پھر وقت کا پلڑا صرف سیاست اور تشہیر میں جھول گیا
دو چار پرانے جمے رہے پر میراجیؔ کو ایک زمانہ بھول گیا

کم اہل سخن کم اہل نظر کو یاد رہا
کوئی میراجیؔ بھی شاعر تھا

وہ پاکستان نہیں آئے
کیسے آتے

کوئی عشق کے زور پہ بلواتا تو آ جاتے
بمبئی میں ننگے بھوکے اور بیمار رہے

واں اخترالایمان ہی ان کے دوست مربی خادم بستر مرگ اور قبر تلک غم خوار رہے
یاں ان کے صاحب قوت چاہنے والے بھی دو وقت کی روٹیاں دینے کو بلوا نہ سکے

یہ اپنے اپنے ضمیر پہ ہے کیا کہوائے اور اب بھی کیا کہوا نہ سکے
آسان ترین بیاں یہ ہوگا بلوایا پر آ نہ سکے

اور اب ان کا دیوان چھپا
دوبارہ وہی دربار سجا

کیا گہرا چوڑا دریا ہے
کن کن سمتوں میں بہتا ہے

جگ بھر سے خزانے لیتا ہے
جگ بھر کو کو خزانے دیتا ہے

کیا اس میں سفینے بہنے لگے
سب ان کو قصیدے کہنے لگے

اب فیضؔ بھی ہیں اور راشدؔ بھی
وہ بہت بڑے پر میراجیؔ

ہاں میراجیؔ وہ چمکتے ہیں
کیا کیا ہیرے کیا کیا موتی کس شان کے ساتھ دمکتے ہیں

اے یار غیاب مجید امجدؔ
خاموش شکار رشک و حسد

بے تشہیری کے صید زبوں
کب جھنگ میں آ کر تجھ سے کہوں

لے وہ سچ واپس آیا ہے
جو جس کا حق ہو ایک نہ ایک دن اس نے پورا پایا ہے