گلنار دیکھتی ہے یہ مزدور عورتیں
چہروں پہ خاک دھول کے پونچھے ہوئے نشاں
تو اور رنگ غازہ و گلگونہ و شہاب
سوچا بھی کس کے خون کی بنتی ہیں سرخیاں
گلنار دیکھتی ہے یہ مزدور عورتیں
میلے پھٹے لباس ہیں محروم شست و شو
تو اور عطر و عنبر و مشک و عبیر و عود
مزدور کے بھی خون کی آتی ہے اس میں بو
گلنار دیکھتی ہے یہ مزدور عورتیں
تن ڈھانکنے کو ٹھیک سے کپڑا نہیں ہے پاس
تو اور حریر و اطلس و کم خواب و پرنیاں
چبھتا نہیں بدن پہ ترے ریشمی لباس
گلنار دیکھتی ہے یہ مزدور عورتیں
چاندی کا کوئی گنجھ نہ سونے کا کوئی تار
تو اور ہیکل زر و آویزۂ گہر
سینہ پہ کوئی دم بھی دھڑکتا ہے تیرا ہار
گلنار دیکھتی ہے یہ مزدور عورتیں
صدیوں سے ہر نگاہ ہے فاقوں کی رہ گزر
تو اور ضیافتوں میں بصد ناز جلوہ گر
کس کے لہو سے گرم ہے یہ میز کی بہار
گلنار دیکھتی ہے یہ مزدور عورتیں
تاریک مقبروں سے مکاں ان کے کم نہیں
تو اور زیب و زینت الوان زر نگار
کیا تیرے قصر ناز کی ہلتی نہیں زمیں
گلنار دیکھتی ہے یہ مزدور عورتیں
محنت ہی ان کا ساز ہے محنت ہی ان کا راگ
تو اور شغل رامش و رقص و رباب و رنگ
کیا تیرے ساز میں بھی دہکتی ہے کوئی آگ
گل نار دیکھتی ہیں یہ مزدور عورتیں
محنت پہ اپنے پیٹ سے مجبور عورتیں
نظم
مزدور عورتیں
جاں نثاراختر