میں مرنے کے لیے پیدا نہیں ہوا
مجھ پر کسی قسم کا حملہ
اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی
جس پر ایک غیبی ہاتھ اور میں نے
دستخط کیے تھے
اور جس کی رو سے
موت مجھ پر برحق نہیں ٹھہری تھی
زندہ رہنا اب میرا درد سر نہیں
میں یہ فریضہ
تاریخ کو سونپ چکا ہوں
تاریخ جو میری رگوں میں
زہر کی صورت داخل ہوئی
اور اب امرت بن کر
میرے مساموں سے
قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے
موت سے میری کوئی شناسائی نہیں
میں اس سے درخواست کروں گا
وہ میرے خلاف
کسی سازش میں شریک نہ ہو
کہ میرے پاس
معاہدے کی جو نقل محفوظ ہے
اس پر اس کے دستخط
بطور گواہ موجود ہیں
نظم
موت مجھ پر برحق نہیں
جاوید شاہین