رات کے اندھیرے میں
آج پھر دبے پاؤں
سرسراتی سرگوشی
پھن اٹھا کے چلتی ہے
وقت ریت کی مانند
ہاتھ سے پھسلتا ہے
نیند مجھ سے روٹھی ہے
بھوک رقص کرتی ہے
پیاس چبھنے لگتی ہے
سانس کیوں اٹکتی ہے
جھانکو میری آنکھوں میں
عکس دیکھ لو اپنا
اور مجھے یہ بتلا دو
کیا تمہیں کھٹکتا ہے
کیوں گریزاں ہو مجھ سے
کیا میں بوجھ لگتی ہوں
کیوں مچل سی جاتی ہو
ہاتھ بھی بڑھاتی ہو
پھر پرے کھسکتی ہو
ہاتھ کھول دو میرے
بھینچ لو نا سینے میں
گال چھونے دو اپنے
گر نہیں رہی کل میں
لمس تو رہے گا نا
یہ صدائیں کیسی ہیں
جن کی گونج سے میرے
کان سنسناتے ہیں
کس کی سسکیاں ہیں یہ
زندگی کی یا تم ہو
موت تو نہیں نا یہ
موت گر نہیں ہے یہ
آہٹیں ہیں پھر کس کی
کیوں گھٹن کا پہرہ ہے
کیا مجھے جنم دے کر
تم نے موت بانٹی ہے
نظم
موت کس نے بانٹی ہے
میمونہ عباس خان