موت نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں
تو اسے بدن کا بوسیدہ لباس ہاتھ میں تھامے
بے خوف و خطر
اپنے استقبال کے لیے کھڑا پایا
وہ سہم گئی
اس کی ہیبت ماند پڑ گئی
وہ اس کے قاتلوں کے پاس گئی
اور جو کچھ دیکھا تھا انہیں بتا دیا
وہ سمجھے کہ موت ان کے ساتھ کسی سازش میں شریک ہو گئی تھی
ان کی تسلی کے لیے
وہ اس کا بوسیدہ لباس لے آئی
مگر جاتے وقت نصیحت کر گئی
کہ اسے سنبھال کر رکھیں
اس دن کے لیے
جب ملک میں کپڑے کا قحط پڑے گا
اور ان کے ننگے بدن ڈھانپنے کے لیے
کسی کے پاس کوئی کپڑا نہ ہوگا
اس ایک لباس کے سوا
نظم
موت کی نصیحت
جاوید شاہین