EN हिंदी
موت | شیح شیری
maut

نظم

موت

اختر الایمان

;

کون آوارہ ہواؤں کا سبکبار ہجوم
آہ احساس کی زنجیر گراں ٹوٹ گئی

اور سرمایۂ انفاس پریشاں نہ رہا
میرے سینے میں الجھنے لگی فریاد مری

پھر نگاہوں پہ امنڈ آیا ہے تاریک دھواں
ٹمٹمانا ہے مرے ساتھ یہ مایوس چراغ

آج ملتا نہیں افسوس پتنگوں کا نشاں
میرے سینے میں الجھنے لگی فریاد مری

ٹوٹ کر رہ گئی انفاس کی زنجیر گراں
توڑ ڈالے گا یہ کمبخت مکاں کی دیوار

اور میں دب کے اسی ڈھیر میں رہ جاؤں گا
جی الجھتا ہے مری جان پہ بن جائے گی

تھک گیا آج شکاری کی کماں ٹوٹ گئی
لوٹ آیا ہوں بہت دور سے خالی ہاتھوں

آج امید کا دن بیت گیا شام ہوئی
میں نے چاہا بھی مگر تم سے محبت نہ ہوئی

کہ چکے اب تو خدا کے لیے خاموش رہو
ایک موہوم سی خواہش تھی فلک چھونے کی

زنگ آلود محبت کو تجھے سونپ دیا
سرد ہاتھوں سے مری جان مرے ہونٹ نہ سی

گر کبھی لوٹ کے آ جائے وہی سانولی رات
خشک آنکھوں میں جھلک آئے نہ بے سود نمی

زلزلہ اف یہ دھماکا یہ مسلسل دستک
بے اماں رات کبھی ختم بھی ہوگی کہ نہیں

اف یہ مغموم فضاؤں کا المناک سکوت
میرے سینے میں دبی جاتی ہے آواز مری

تیرگی اف یہ دھندلکا مرے نزدیک نہ آ
یہ مرے ہاتھ پہ جلتی ہوئی کیا چیز گری

آج اس اشک ندامت کا کوئی مول نہیں
آہ احساس کی زنجیر گراں ٹوٹ گئی

اور یہ میری محبت بھی تجھے جو ہے عزیز
کل یہ ماضی کے گھنے بوجھ میں دب جائے گی

کون آیا ہے ذرا ایک نظر دیکھ تو لو
کیا خبر وقت دبے پاؤں چلا آیا ہو

زلزلہ اف یہ دھماکا یہ مسلسل دستک
کھٹکھٹاتا ہے کوئی دیر سے دروازے کو

اف یہ مغموم فضاؤں کا المناک سکوت
کون آیا ہے ذرا ایک نظر دیکھ تو لو

توڑ ڈالے گا یہ کمبخت مکاں کی دیوار
اور میں دب کے اسی ڈھیر میں رہ جاؤں گا