کھیت پیاسے ہیں
فضا ہانپتی ہے
جا بہ جا اکھڑی جڑیں چاٹتی اک گائے
کے سوکھے ہوئے مٹیالے کھروں کی مانند
پھٹ گئی ہے جو زمیں
اس میں اگی جھاڑیاں
بے برگ و ثمر رہتی ہیں
موسم ہو کوئی
کسی فالج زدہ بیمار کے اکڑے ہوئے پنجے کی طرح
ٹہنیاں سوئے فلک دیکھتی فریاد کناں ہیں کب سے
محض فریاد سے اے دوست مگر کیا ہوگا
جوڑتا رہتا ہے موسم کی وراثت سے دلوں کو
جو کسی میز نما شے یہ کئی دن سے پڑا
چائے خانے کا پھٹا سا اخبار
اک نظر آؤ اسے دیکھ تو لیں
حال ایسا ہے کہ اب جو بھی ہو اچھا ہوگا
نظم
موسم کی وراثت
شاہین غازی پوری