یوں رگ و پے میں اجل اتری ہے
ہاتھ ساکت ہیں دعا کیا مانگیں
آنکھ خاموش ہے، کیا دیکھے گی
ہونٹ خوابیدہ ہیں کیا بولیں گے
ایک سناٹا ابد تا بہ ابد
جہد یک عمر کا حاصل ٹھہرے
درد کا شعلہ رگ جاں کا لہو
جنس بے مایہ تھے بے مایہ رہے
تیرہ خاک ان کی خریدار بنے
نکہت گل کی طرح آوارہ
بوئے جاں، وسعت آفاق میں گم
یک کف خاک ہے وہ بھی کب تک؟
صبح کی اوس سے آنکھیں دھو لو
کمرے سے جھانک کے باہر دیکھو
ایسے مصروف تگ و تاز ہیں سب
جیسے کل ان کے مقدر میں نہیں
میں تماشائی ہوں ہر منظر کا
جیسے کل میرے مقدر میں نہیں
نظم
مرنے والے کے کمرے میں
محمود ایاز