میں اگر خاک
تو ہے آب مری
تو ہے تعبیر
میں ہوں خواب ترا
تو اگر آگ
میں ہوا کا شور
تو زمیں میری
میں ترا آکاش
میں ترا جسم
تو ہے روح مری
عشق میرا ہے ریگ زاروں سا
حسن تیرا ہے آبشاروں سا
تو ہمالہ کی پر فضا وادی
میں سمندر کی طرح آزادی
اور کس کس طرح سے کیا بولوں
عین فطرت کے راز کیا کھولوں
یہ من و تو کا فرق ہی شاید
ہم سے لیتا ہے امتحاں جاناں
آخری یہ فصیل گر جائے
پھر تو ہے وصل جاوداں جاناں
اک فنا اپنی ابتدا جاناں
اک فنا اپنی انتہا جاناں
نظم
من تو شدم تو من شدی
خورشید اکبر