EN हिंदी
میں کیوں بھول جاؤں | شیح شیری
main kyun bhul jaun

نظم

میں کیوں بھول جاؤں

عرش ملسیانی

;

تری چشم مے گوں کا لبریز ساغر
جوانی تری کیف آور جوانی

گلستاں در آغوش حسن تبسم
وہ تیرے لب سرخ کی گل فشانی

تکلم کے انداز خاموشیوں میں
زبان نظر پر حیا کی کہانی

تو ہی مجھ سے کہہ دے میں کیوں بھول جاؤں
وہ سانسوں کی تیزی وہ سینے کی دھڑکن

وہ دونوں کا چھپ چھپ کے آنسو بہانا
وہ تجدید الفت کے سو سو بہانے

وہ اک دوسرے سے یوں ہی روٹھ جانا
وہ ترک محبت کے الزام دے کر

کسی کا کسی کو ہنسی میں رلانا
تو ہی مجھ سے کہہ دے میں کیوں بھول جاؤں

وہ پاس ادب وہ خلوص محبت
وفور تمنا میں خاموش رہنا

وہ نظارگی میں تحیر کا عالم
خود اپنی نگاہوں سے خاموش رہنا

رضا جو طبیعت وہ تعلیم کوشی
غم و رنج میں بھی وفا کوش رہنا

تو ہی مجھ سے کہہ دے میں کیوں بھول جاؤں
سوالوں کا طومار مبہم زباں میں

مگر راز دل کا نہ اظہار کرنا
نگاہیں ملانے میں تو اک جھجھک سی

مگر دل ہی دل میں مجھے پیار کرنا
وہ عرض محبت پہ معصوم وعدے

وہ لکنت زباں کی وہ اقرار کرنا
تو ہی مجھ سے کہہ دے میں کیوں بھول جاؤں

تری چشم پر نم وہ مسعود ساعت
یقیں بن گیا جب گمان محبت

محبت کے دن اور وہ فرقت کی راتیں
دعائیں تھیں جب ترجمان محبت

وہ خط جن کا ہر لفظ اک داستاں تھا
وہ جذبات سے پر بیان محبت

تو ہی مجھ سے کہہ دے میں کیوں بھول جاؤں
وہ چھٹکی ہوئی چاندنی کی بہاریں

وہ گل پوش راتیں وہ دل کش نظارے
مناظر سمٹتے ہوئے آب جو میں

فلک پر چمکتے ہوئے چاند تارے
وہ تھک کر کسی کا یوں ہی بیٹھ جانا

وہ اٹھنا کسی کا کسی کے سہارے
تو ہی مجھ سے کہہ دے میں کیوں بھول جاؤں

وہ طوفان جذبات و زور تمنا
وہ جوش محبت وہ پر شوق باتیں

وہ گھڑیاں وہ آرام و راحت کی گھڑیاں
وہ فرحت کے دن وہ مسرت کی راتیں

وہ گھاتیں وہ گھاتوں کے پردے میں وعدے
وہ وعدے وہ وعدوں کے پردے میں گھاتیں

تو ہی مجھ سے کہہ دے میں کیوں بھول جاؤں
مآل مسرت وہ مجبور آنسو

وہ کیف طرب کا غم انجام ہونا
پر الزام باتیں وہ سب کی زباں پر

محبت کے قصے کا وہ عام ہونا
وہ برگشتہ خاطر بزرگوں کی باتیں

وہ معصوم روحوں کا بدنام ہونا
تو ہی مجھ سے کہہ دے میں کیوں بھول جاؤں

وہ دن تفرقہ خیز مجبوریوں کا
فریب مقدر کی وہ چیرہ دستی

خمار مے عیش اور نا مرادی
وہ مرگ تمنا وہ انجام مستی

رسوم کہن کی ستم آفرینی
زمانے کا جور قدامت پرستی

تو ہی مجھ سے کہہ دے میں کیوں بھول جاؤں