میں جنسی کھیل کو صرف اک تن آسانی سمجھتا ہوں
ذریعہ اور ہے معبود سے ملنے کا دنیا میں
تخیل کا بڑا ساگر تصور کے حسیں جھونکے
لیے آتے ہیں بارش میں تمنائیں عبادت کی
مگر پوری نہیں ہوتی تمنا دل کی چاہت کی
کسی عورت کا پیراہن کسی خلوت کی خوشبوئیں
کسی اک لفظ بے معنی کی میٹھی میٹھی سرگوشی
یہی چیزیں مرے غمگیں خیالوں پر ہمیشہ چھائی رہتی ہیں
عبادت کا طریقہ حرکتیں ہیں تشنہ و مبہم
کبھی روح صنم بیدار خواب مگر مہمل سے نہیں
کسی اندر سبھا کی لاکھ پریاں آ کے بہلائیں
لبھاتے ناچ ناچیں اور رسیلے راگ بھی گائیں
مگر یہ مردہ دل عادی ہے بس غمگیں خیالوں کا
گھٹا آتی نہیں خوشیوں کی بارش لا نہیں سکتی
مری روح حزیں محکوم ہے اپنے تاثر کی
ذریعہ اور ہے معبود سے ملنے کا دنیا میں
میں جنسی کھیل کو کیوں اک تن آسانی سمجھتا ہوں
کبھی انساں کی عمر مختصر پر غور کرتا ہوں
کبھی فانی تمناؤں کی جھیلوں میں یونہی کھویا سا پھرتا ہوں
نظم
میں جنسی کھیل کو صرف اک تن آسانی سمجھتا ہوں
میراجی