مے شکستہ دلی اے حریف ذوق نمو
کسی گزشتہ صدی کے اطاق ویراں سے
نہ ڈال اور مرے دل پہ سایۂ گیسو
وہ عنکبوت جو تار نفس میں جیتے ہیں
نہ جانے کیسے در آئے ہیں تیری محفل میں
کہ خون یہ بھی ترے رت جگوں کا پیتے ہیں
میں جانتا ہوں کسے مل سکی کسے نہ ملی
وہ گل سرائے بہشت آفریں مگر پھر بھی
مجھے نہفتہ نہ رکھ اے مے شکستہ دلی
مرے ظہور میں کچھ ممکنات میرے ہیں
میں دیکھ پاؤں اگر تجھ سے اس افق سے پرے
تو پھر یہ سارے درخشاں جہات میرے ہیں
نظم
مے شکستہ دلی اے حریف ذوق نمو
اسلم انصاری