میں نے جب بھی پلٹ کے دیکھا ہے
دھند کچھ آئینے سے چھوٹی ہے
عکس کچھ آئنے میں ابھرے ہیں
میں نے دیکھا ہے اک شکستہ پر
زندگی سے تمام تر عاری
جیسے ماضی ہو! عہد رفتہ ہو
ایک نا سفتہ گوہر شفاف
جیسے اک آفتاب تازہ ہو
روز آئندہ، روز فردا ہو
ایک شاہین ماورا سے پرے
ایک نکھری ہوئی فضائے بسیط
حال ہو جیسے عہد حاضر ہو!
دھند پھر آئینے سے لپٹی ہے
عکس دھندلا سا میں نے دیکھا ہے
پیچ در پیچ جال مکڑی کا!
اجلا اجلا سا، وہ روپہلا سا
جس کے تاروں میں موت پنہاں ہے
ایک مکھی ہے نیم جاں مجبور
جانے کس دور کا یہ خاکہ ہے!
جانے کس دور کے تصور سے
دل مرا کانپ کانپ جاتا ہے
نظم
مآل
راج نرائن راز