کالی عینک لگائے گھومتے رہنا سورج میں سڑکوں پر ہوٹلوں میں
تھئیٹروں میں مسجدوں میں دکانوں میں ریلوے پلیٹ فارم پر
بھٹیار گلیوں میں شامل ہونا بجھے بجھے چہروں والی بھیڑ میں تاکتے رہنا
سفید دیواروں کو اکیلے لایعنی ہے سب کچھ اور جو دکھائی دیتا ہے
وہ نہیں ہے پھر بھی دکھائی دیتا ہے کوئی فرق نہیں پڑتا پاؤں ہیں جرابیں
نہ ہونے سے لائف اور ٹائم نہ پڑھنے سے یہی کیا کم ہے کہ صبح سے
شام تک جمع کرتے ہیں لفظوں کو ریڈیو سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں مرے
ہوئے کبوتر کی آنکھ اسکول سے لوٹتے ہوئے بچے شراب کی جھیل میں تیرتے
شکارے پچاس سے کم شعر کی غزل نہیں لکھتے فراق آج بھی قبائلی
کمر سے باندھے پھرتے ہیں چالیں گز کی شلوار کیا ہوتا ہے نام سے
یا شعر کہنے سے یا دن بھر اونگھتے رہنے سے یا کتابیں سونگھنے سے
تاش کھیلنے کا مزہ ہی اور ہے احمدآباد ہو یا لاہور ہر جگہ ہوتا ہے
سورج گھر بیٹھے گنگا ہے بھائی کانگریس میں پھوٹ پڑے یا سات
ہزار انسان مار دئے جائیں بھوکے اٹھتے ہیں ہر صبح بستر سے کسی نے
دیکھے ہیں بیکیٹ اور پکاسو کبڈی کے میدان میں یا گنسبرگ کو
استری کرتے ہوئے نکسن سے لے کر مرار جی تک کوئی بھی روک نہ سکا
چھینک اور کھانسی اب آنکھیں کھول دیجیے حضرت دیکھیے پورا
امریکہ چھینک رہا ہے کھانس رہا ہے ادھر دیکھیے یہ ہندوستان
بھی چھینک رہا ہے کھانس رہا ہے کھانس رہا ہے چھینک رہا ہے
کہاں سے شروع ہوئی ہے تاریخ اور کہاں جا کر رکنا ہے لوگوں کو
اداس رہتی ہیں حاملہ عورتیں بس اور سنیما کی قطار میں گھیر رکھی ہے
زمین بھکاریوں نے اور منگاؤ چرس اور گانجا پھر بھی الگ کرنا مشکل
ہے پرانی کو نئی دلی سے لاشوں کو دیکھ کر محفوظ نہیں ہوتے تم کیسے
آدمی ہو کہاں گئیں وہ طوائفیں کہاں گئے وہ قوال معنی تو ہر لفظ
میں موجود ہے لیکن
نظم
لیکن
عادل منصوری