سب جھوٹ بولتے ہیں
میں جب ماں کے پیٹ میں تھا تب بھی جھوٹ نہیں بولتا تھا
میں نے ماں کے پیٹ میں
تازہ تازہ گرم سرخ خون پیا تھا
پیدائش کے بعد سفید گاڑھا ٹھنڈا خون مجھے ملا
جب سے میں مسلسل خون پی رہا ہوں
میں نے بچپن سے لڑکپن تک
لڑکپن سے جوانی تک
بارہا اس خون کا ذائقہ چکھا ہے
میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا
اس کے مرنے سے
میرا تمام جسم آشنا ہے
اکثر جب میرے جسم پر کوئی زخم لگتا ہے تو
بے ساختہ زبان اس طرف لپکتی ہے
اور مجھے
وہی ذائقہ یاد آنے لگتا ہے
جو میں نے پہلی بار
ماں کے پیٹ میں چکھا تھا
نظم
لہو کا ذائقہ
خالد غنی