کیا کوئی خبر آئے
زندگی کے ترکش میں
جتنے تیر باقی تھے
میری بے دھیانی سے
دل کی خوش گمانی سے
ساز باز کرتے ہی
روح میں اتر آئے
دھند اتنی گہری ہے
کچھ پتا نہیں چلتا
خواب کے تعاقب میں
کون سے زمانوں سے
کتنے آسمانوں سے
ہم گزر کے گھر آئے
فصل گل کی باتیں بھی
اب کہاں رہیں ممکن
عمر کی کہانی میں
ایسی بے زمینی میں
ایسی لا مکانی میں
صرف اتنا ممکن ہے
دھڑکنوں کی گنتی میں
اگلا موڑ مڑتے ہی
آخری سفر آئے
نظم
کوئی زندگی تھی گمان سی
ناہید قمر