EN हिंदी
کوئی رہبر کوئی ساتھی کوئی اپنا نہ ملا | شیح شیری
koi rahbar koi sathi koi apna na mila

نظم

کوئی رہبر کوئی ساتھی کوئی اپنا نہ ملا

واقف رائے بریلوی

;

میں وہ کشتی ہوں کبھی جس کو کنارا نہ ملا
لے لیا اپنی جوانی کا سہارا میں نے

جب مجھے قوم کے ہاتھوں کا سہارا نہ ملا
ہو کے مجبور جہنم کو بسایا میں نے

جب مجھے مندر و مسجد میں ٹھکانا نہ ملا
کل حقارت سے جو کہتے تھے بھکارن مجھ کو

آج کہتے ہیں کہ گلشن میں نیا پھول کھلا
کوئی سمجھا نہ میری روح کو خاموش پکار

سب سمجھتے رہے چلتا ہو سکہ مجھ کو
چند لمحے تو گزر جائیں گے اچھے خاصے

جس نے دیکھا اسی انداز سے دیکھا مجھ کو
کھیلتی ہے مری رگ رگ سے یہ پاپی دنیا

دے کے کاغذ کے کھلونے مجھے بہلاتی ہے
میری مجروح جوانی کی شکستہ کشتی

کتنے بپھرے ہوئے طوفانوں سے ٹکراتی ہے
میری آغوش کو فردوس سمجھنے والو

تم کو معلوم ہے کس طرح سے میں جتنی ہوں
چند چاندی کے کھنکتے ہوئے سکوں کے تلے

رات پھر اپنی جوانی کا لہو پیتی ہوں
گندی نالی میں اسے پھینک دیا جائے گا

وہ کلی جو ابھی معصوم ہے بے پروا ہے
میری بچی میری بچی بھی طوائف ہوگی

سانپ کی طرح یہ احساس مجھے دستا ہے
کل کسی قوم کے خادم نے سہارا نہ دیا

آج کس منہ سے یہ کہتے ہو کہ بد کار ہوں میں
میں تمہارے ہی تو کردار کا آئینہ ہوں

کون کہتا ہے کہ پاپی ہوں گناہ گار ہوں میں