EN हिंदी
خوف | شیح شیری
KHauf

نظم

خوف

باقر مہدی

;

سائے سائے جالے جالے خاموشی خاموشی سی
ٹوٹی ٹوٹی الجھی الجھی بے خوابی بے خوابی سی

حرفوں سے بچتا بچتا معنی سے چھپتا چھپتا
رنگوں میں ڈوبا ڈوبا سانسوں میں ابھرا ابھرا

ذروں میں چمکا چمکا لہروں میں سہما سہما
تیز ہوا کے جھونکوں میں رک رک کر اڑتا اڑتا

نشتر زہر محبت درد خون کے اک اک قطرے میں
رہ رہ کر چبھتا چبھتا

کیا ہے یہ
کون ہے یہ

آنسو ریت بنے کیسے پلکوں پہ چمکے کیسے
ہر منزل پر لہراتا ہے کب سے زرد پھریرا کون

ٹوٹے آدرشوں کے شیشے گنتا ہے وہ بیٹھا کون
میرے ہر اظہار میں پنہاں بے معنی خاموش کیوں

میرے تھک کے سو جانے میں خوابوں میں بے چینی کیوں
میرے بام سے اڑ جاتا ہے قطرہ قطرہ نشہ کیوں

یہ روز و شب سارے لمحے ننھے ننھے ٹکڑے ٹکڑے
رگ رگ میں پیوست ہوئے خون بنے درد بنے

اک مدت سے صبح ازل سے
میری روح میں کون چھپا ہے

کون چھپا ہے