کیسی خاموشی ہے ویرانی ہے سناٹا ہے
کوئی آہٹ ہے نہ آواز نہ کوئی دھڑکن
دل ہے یا قبر سلگتی ہوئی تنہائی کی
ذہن ہے یا کسی بیوہ کا اکیلا آنگن
اڑ گیا رنگ ہر اک سوچ کے آئینے کا
شب کے بے نور دوپٹے سے ستارے ٹوٹے
جم گئی گرد خیالوں کی حسیں راہوں پر
مدتیں ہو گئیں امید کا دامن چھوٹے
یک بیک دور بہت دور بہت دور کہیں
تیری پازیب چھنکنے کی صدا آنے لگی
شوق نے پاؤں بڑھائے اسی آواز کی سمت
تجھ سے ملنے کی لگن اور بھی تڑپانے لگی
یہ کھنڈر آج جہاں رات کی تاریکی میں
تو نے بھولے ہوئے افسانے کو دہرایا ہے
اسی اجڑے ہوئے ویران کھنڈر میں کہ جہاں
کتنے دن بعد ترا سایہ نظر آیا ہے
اسی اجڑے ہوئے ویران کھنڈر میں ہم نے
عمر بھر ساتھ نبھانے کی قسم کھائی تھی
اسی اجڑے ہوئے ویران کھنڈر میں تیرے
تھرتھراتے ہوئے ہونٹوں پہ دعا آئی تھی
رسم کوئی ہو مگر ہم کو جدا کر نہ سکے
یہ روایات نہ پہنائیں کبھی زنجیریں
ہم کہ اس راز سے اس بات سے ناواقف تھے
کہ دعاؤں سے بدلتی ہی نہیں تقدیریں
لیکن اب رسم کوئی کچھ نہ کہے گی مجھ سے
اب روایات کو مجبور کیا ہے میں نے
اب نہ روکے گا مری راہ زمانہ بڑھ کر
جو بھی انجام ہو یہ سوچ لیا ہے میں نے
میں مقدر سے گلے مل کے نہیں رو سکتا
تجھ کو پانا مرا مقصد ہے تجھے پاؤں گا
آج ٹھکرا کے ہر اک مصلحت اندیشی کو
تیرے سائے کے تعاقب میں چلا جاؤں گا
نظم
کھنڈر
کفیل آزر امروہوی