(سچے لوگوں کے نام)
عجیب ماں ہو
تم اپنے بچوں کو مارتی ہو
تو اس خطا پر
کہ وہ حکومت کی وحشتوں کے خلاف نکلے
جلوس کے ساتھ جا رہے تھے
تم اب پریشان ہو رہی ہو
میں آنے والی گھڑی کے بارے میں سوچتا ہوں
جب ایک موسم کئی کئی سال تک رہے گا
تم اپنے ہاتھوں سے مرے شانے ہلا ہلا کر کہو گی
باہر نکل کے ان کافروں کو روکو
جو اپنے جسموں میں اندھا ہیجان بھر کے
سڑکوں پہ چیختے ہیں
رب موسم!
جولائی سر پہ ہے اور کہرا
ہمارے جسموں میں
اور فصلوں کے رونگٹوں میں اتر رہا ہے
ہمیں جولائی میں جنوری کی فضائیں منظور کس طرح ہوں
ہمارے ذہنوں میں
رت کی تبدیلیوں کے خاکے بنے ہوئے ہیں
اب تم پریشان ہو رہی ہو
میں گزرے وقتوں کی آہٹیں سن رہا ہوں
جب میں نے یہ کہا تھا
کہ بچے تم پہ گئے تو آرام سے رہیں گے
مگر جو ورثے میں میری سوچیں ملیں
تو وعدہ کرو یہ شکوہ نہیں کرو گی
کہ میرے بچے
جنہیں کئی ماہ میں نے اپنا لہو دیا تھا
وہ اس لہو کو
اجاڑ سڑکوں کے منہ پہ ملنے پہ تل گئے ہیں
نظم
خاکے
وحید احمد