غبار شام کے بے عکس منظر میں ہوا کی سائیں سائیں
پنچھیوں کو ہانکتی ہے
دور چرواہے کی بنسی میں ملن رس کا سریلا ذائقہ ہے،
رات رستے میں
کہاں سے تم مجھے آواز دیتی ہو!
مسلسل آہٹیں میری سماعت ہی نہ لے جائیں
بچا رکھے ہوئے آنسو کی بینائی ٹپکتی ہے
انہیں لفظوں کی لو میں رات کٹتی ہے جنہیں آنکھوں نے تصویر
شب وعدہ کی سنگینی روایت ہے
مرے امروز کے چولھے میں بھی اب تک وہی ایندھن
بھڑکتا ہے
اگر آواز روایت ہوں
اگر آواز دیتی ہو
تو آؤ صبح کے ساحل کو چلتے ہیں
لہو میں کسمساتے قہقہے ہونٹوں تک آنے دو
مجھے بھی مسکرانے دو

نظم
کہیں سے تم مجھے آواز دیتی ہو
تابش کمال