کہیں کچھ نہیں ہوتا
نہ آسمان ٹوٹتا ہے
نہ زمیں بکھرتی ہے
ہر چیز اپنی اپنی جگہ ٹھہر گئی ہے
ماہ و سال
شب و روز
برف کی طرح جم گئے ہیں
اب کہیں اجنبی قدموں کی چاپ سے
کوئی دروازہ نہیں کھلتا
نہ کہیں کسی جادوئی چراغ سے
کوئی پریوں کا محل تعمیر ہوتا ہے
نہ کہیں بارش ہوتی ہے
نہ شہر جلتا ہے
کہیں کچھ نہیں ہوتا
اب ہمیشہ ایک ہی موسم رہتا ہے
نہ نئے پھول کھلتے ہیں
نہ کہیں پت جھڑ ہوتا ہے
کھیتوں اور کھلیانوں سے
سجے ہوئے بازاروں تک
نئے موسم کے انتظار میں
لوگ چپ چاپ کھڑے ہیں
نہ کہیں کوئی کنواری ہنستی ہے
نہ کہیں کوئی بچہ روتا ہے
کہیں کچھ نہیں ہوتا
راستوں پر اور افق بکھر گئے ہیں
اور کتابوں پہ دھول
دماغوں میں جالے ہیں
اور دلوں میں خوف
گلیوں میں دھواں ہے
اور گھروں میں بھوک
اب نہ کوئی جنگل جنگل بھٹکتا ہے
نہ کوئی پتھر کاٹ کاٹ کر نہریں نکالتا ہے
کہیں کچھ نہیں ہوتا
نظم
کہیں کچھ نہیں ہوتا
شاہد ماہلی