EN हिंदी
کہاں جا رہا ہوں | شیح شیری
kahan ja raha hun

نظم

کہاں جا رہا ہوں

پیغام آفاقی

;

زمیں پہلے ایسی کبھی بھی نہ تھی
پاؤں مٹی پہ ہوتے تھے

نظریں افق پر
ہمیں اپنے بارے میں معلوم ہوتا تھا

ہم کون ہیں
اور کیا کر رہے ہیں

کہاں جا رہے ہیں
مگر آج عالم یہ ہے

پاؤں رکتے نہیں
آنکھ کھلتی نہیں

اجنبی راستوں پر
میں بڑھتا چلا جا رہا ہوں