وقت نے پوچھا
کیا تم مجھ کو جانتے ہو
ہاں
کیا تم مجھ کو مانتے ہو
ناں
کیا مطلب ہے
کیا مطلب تھا
وقت بھی چپ ہے
جانے وہ کب کیا بولے گا
آج کی کتنی باتوں کو بھی
کیسے کیسے بدلنے والے
بنتے بنتے غم سے خوشی سے اور حیرت سے
اپنی آنکھیں ملنے والے
میزانوں میں ڈنڈی مار کے یا سچائی سے تولے گا
اور پھر میں بھی چپ نہ رہوں گا
لیکن
جو اس وقت مجھے بھی کہنا لازم ہو
وہ کہہ نہ سکوں گا
شاید وہ سب سہہ نہ سکوں گا
ہاں بھئی لے اس لمحے میں تجھ کو مانتا بھی ہوں
اب یہ چھوڑ کہ جانتا بھی ہوں
جو تو چاہے آج بتا دے
ورنہ مجھ کو ابھی بھلا دے
کون اب کیا کیا کس کو سکھائے
جو بولے وہ مارا جائے
اے میراؔ جی آپ کو تو سب بھول گئے ہیں
آپ یہاں اور مجھ جیسے معتوب زماں کو آخر اک دم کیوں یاد آئے
نظم
جو بولے مارا جائے
جمیل الدین عالی